اتوار، 19 فروری، 2017

زندگی مائلِ فریاد و فغاں آج بھی ہے - از ڈاکٹر کلیم عاجز - Zindagi mael e Faryad by Dr. Kaleem Aajiz R.A

زندگی مائلِ فریاد و فغاں آج بھی ہے
کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے
دلِ افسردہ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں
بزم میں مجمعِ خستہ جگراں آج بھی ہے
تلخیِ کوہ کنی کل بھی مرا حصہ تھا
جامِ شیریں بہ نصیب دیگراں آج بھی ہے
زخمِ دل کے نہیں آثار بظاہر لیکن
چارہ گر سے گلہِ درد نہاں آج بھی ہے
آج بھی گرم ہے بازار جفا کاروں کا
کل بھی آراستہ تھی اُن کی دُکاں آج بھی ہے
گوشئہ امن نہیں آج بھی بلبل کو نصیب
چشم صیاد بہر سُو نگراں آج بھی ہے
آج بھی زخمِ رگِ گل سے ٹپکتا ہے لہو
خوں مین ڈوبی ہوئے کانٹوں کی زبان آج بھی ہے
زندگی چونک کے بیدار ہوئی ہے لیکن
چشم و دل پر اثرِ خوابِ گراں آج بھی ہے
اِس طرف جنس وفا کی وہی ارزانی ہے
اُس طرف اک نگہ ِ لطف گراں آج بھی ہے
حیف کیوں قسمتِ شاعر پہ نہ آئے عاجزؔ
کل بھی کمبخت رہا مرثیہ خواں آج بھی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں