کچھ
اپنی زندگی نالوں میں کچھ فریاد میں گذری
جو
باقی رہ گئی اندیشئہ بیداد میں
گذری
خزاں
کا دور گذرا خانہ بربادی کے ماتم میں
بہار
گل بہار آشیاں کی یاد میں گذری
لہو
جتنا رگوں میں تھا وفا کے جوش میں نکلا
زباں
مین جتنی طاقت تھی ستم کی داد میں گذری
گذارا
بندگئ باغباں میں دورِ آزادی
اسیری
پیروئ خاطرِ صیاد میں گذری
نتیجہ
کچھ نہ تھا عاجزؔ ہماری سعئ و کوشش کا
خموشی
میں جو گذری تھی وہی فریاد میں گذری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں