ہفتہ، 18 فروری، 2017

کلام میر- الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا - Ulti ho gayeen sab tadbeerain

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا

............................................................................................................
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٗ دل نے ، آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو  رو کاٹی پیری میں لی آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے ،صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اسکی ، خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہ بھیجا ، سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے خود مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ، ہم کوعبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے  ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اسکی اُور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا  کعبہ کیساقبلہ ، کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو تھا مسجد میں ننگا ، رات کو تھا میخانے میں
جبہ ، خرقہ ، کرتا ٹوپی ، مستی میں انعام کیا
کاش اب برقع منہ سے اٹھاوے  ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار  کو اپنے عام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ، ہمکو دخل  جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو  رو صبح کیا ، یادن کو جوں توں شام کیا
صبح  چمن میں اس کو  کہیں تکلیف ِ ہوا لے آئی تھی
رخ سے  گل کو مول لیا ، قامت سے سرو  غلام کیا
ساعد سیمیں  دونوں اسکے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دئے
بھولے اسکے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع  ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے ،  جوں جوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی ،وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
میر کے دین و مذہب کو ، اب کیا پوچھتے ہو، ان نے تو
قشقہ کھینچا ، دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں