اتوار، 19 فروری، 2017

اب محفلِ غزل میں غزل آشنا ہے کون؟ - کلیم عاجزؔ Ghazal by Dr. Kaleem Ajiz R.A

اب محفلِ غزل میں غزل آشنا ہے کون؟
مانا کہ ایک ہم ہیں، مگر دُوسرا ہے کون؟
قاتل نے جب پُکارا کہ اہلِ وفا ہے کون؟
سب لوگ جب خموش رہے، بول اُٹھا ہے کون؟
تُم اپنی انجُمن کا ذرا جائزہ تو لو
کہنے کو تو چراغ بہت تھے، جلا ہے کون؟
دعویٰ سُخن کا سب کو ہے لیکن تمام عُمر
اک دشمنِ سخن سے مُخاطب رہا ہے کون؟
سب دیکھتے جدھر ہیں اُدھر کیا ہے؟ کچھ نہیں!
ہم دیکھتے جِدھر ہیں اُدھر دیکھتا ہے کون؟
تصویرِ میکدہ میری غزلوں میں دیکھئیے
سنبھلا رہا ہے کون، نشے میں گِرا ہے کون؟
مَیں ایک نقشِ پا ہُوں مگر مَیں بتاؤنگا
اِس راہ سے جو گزرا ہے وہ قافلہ ہے کون!
سب دوست ایک ایک کرکے مُجھے چھوڑتے گئے
دُشمن بھی دنگ ہے کہ یہ تنہا کھڑا ہے کون
گھر بھی ترا، گلی بھی تری، شہر بھی ترا
جو چاہے جِس کو کہہ دے، تُجھے روکتا ہے کون؟
عاجؔز یہ کِس سے بات کرو ہو غزل میں تُم؟
پردہ اُٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چُھپا ہے کون


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں