چمن میں برق کو پاکر مزاج داں میں نے
اُسی
کو سونپ دی تقدیرِ آشیاں میں نے
جو
اس نے حال دلِ زخم خوردہ کا پوچھا
دکھا
دی خون میں ڈوبی ہوئی زباں میں نے
پہاڑ
ٹوٹ پڑا غیرتِ اسیری پر
نگاہ
کی تھی ذرا س،ئے آشیاں میں نے
ہر
ایک حلقہ زنجیر دم بخود کیوں ہے
یہ
کس کی زلف کی چھیڑی ہے داستاں میں نے
یہ
ذکرِ برق و نشیمن نہیں ہے بے معنیٰ
چھپائی
ہے انہیں پردوں میں داستاں میں نے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں