پیر، 27 فروری، 2017

کلیات میر از میر تقی میر

کلیات میر 

از

میر تقی میر



Armaghan -e- Hijaz ارمغان حجاز

Armaghan -e- Hijaz ارمغان حجاز



Bal-e-Jibreel بال جبریل

Bal-e-Jibreel بال جبریل

Right Click and Select save link as

Bang-e Dara بانگ درا

Bang-e Dara بانگ درا

Right click and select save link as

شکوہ جواب شکوہ

شکوہ جواب شکوہ


Right click and select save link as

Kulliyat E Iqubal


  1. Kulliyt e Iqubal



بدھ، 22 فروری، 2017

چمن میں برق کو پاکر مزاج داں میں نے Ghazal by Dr. Kaleem Aajiz R.A

چمن  میں برق کو پاکر مزاج داں میں نے
اُسی کو سونپ دی تقدیرِ آشیاں میں نے
جو اس نے حال دلِ زخم خوردہ کا پوچھا
دکھا دی خون میں ڈوبی ہوئی زباں میں نے
پہاڑ ٹوٹ پڑا غیرتِ اسیری پر
نگاہ کی تھی ذرا س،ئے آشیاں میں نے
ہر ایک حلقہ زنجیر دم بخود کیوں ہے
یہ کس کی زلف کی چھیڑی ہے داستاں میں نے
یہ ذکرِ برق و نشیمن نہیں ہے بے معنیٰ
چھپائی ہے انہیں پردوں میں داستاں میں نے

دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا Ghazal by Dr Kaleem Aajiz R.A

دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا
اُٹھا نہیں ہے ابھی اعتبار نالوں کا
یہ مختصر سی ہے روداد صبحِ میخانہ
زمیں پہ ڈھیر تھا ٹوٹے ہوئے پیالوں کا
یہ خوف ہے کہ صبا لڑکھڑا کے گر نہ پڑے
پیام لے کے چلی ہے شکستہ حالوں کا
نہ آئے اہلِ خرد وادیِ جُنوں کی طرت
یہاں گذر نہیں دامن بچانے والوں کا
لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے
بڑے غضب کلیجہ تھا مرنے والوں کا

یہ کیسی فصلِ بہاراں چمن میں آئی ہے - Ghazal by Dr. Kaleem Ajiz R.A

سمن میں رنگ نہ بو یا سمن میں آئی ہے
یہ کیسی فصلِ بہاراں چمن میں آئی ہے
ہر ایک سر میں سودائے امتحاں یارب
کشش کہاں سے یہ دارو رسن میں آئی ہے
عزیز کیوں نہ ہو خاکِ رہِ وطن مجھ کو
یہ میرے ساتھ مرے پیرہن میں آئی ہے
وہ نامراد مری بے زباں وفا تو نہیں
جو بن کے شمع تری انجمن میں آئی ہے
خبر دو بزمِ خردکے تماش بینوں کو
بہار پھر مرے دیوانہ پن میں آئی ہے
متاع درد ہر اک شخص کو نصیب نہیں
یہ چیز حصئہ اہل سخن میں آئی ہے

عیش بھی جاوداں نہ تھا رنج بھی جاوداں نہیں - از ڈکٹر کلیم عاجز - Ghazal by Dr. kaleem Aajiz R.A

میں کیا سناؤں حالِ دل اب قابل بیاں نہیں
زخم کدھر کدھر نہیں درد کہاں کہاں نہیں
یہ اور بات ہے کہ میں زحمت کش فغاں نہیں
پہلے بھی بے زباں  نہ تھا آج بھی بے زباں نہیں
بلبل ِ نامراد کا جی نہ لگے تو کیا کرے
اب ہو چمن چمن نہیں آشیاں آشیاں نہیں
اپنے ستم کا اور کچھ معیار کیجئے بلند
دارو رسن میں اب کوئی لذت امتحاں نہیں
وہ دن اگر گذر گئے یہ بھی گذرہی جائیں گے
عیش بھی جاوداں نہ تھا رنج بھی جاوداں نہیں
اپنے کلام کا مجھے عاجزؔ سرور کیوں نہ ہو
خود میرا کسب فیض ہے بخشش دیگراں نہیں

جب صبا آئی اِدھر بھی ذکر بہار آہی گیا - از ڈاکٹر کلیم عاجزؒ Jab Saba Aayee Idhar bhi zikre bahar Aa hi gaya By Dr. Kaleem Aajiz r.A

جب صبا آئی اِدھر بھی ذکر بہار آہی گیا
یاد ہم کو انقلاب روزگار ا آہی گیا
کس لئے اب جبر کی تکلیف فرماتے ہیں آپ
بندہ پرور میں تو زیر اختیار آ ہی گیا
لالہ و گل پر جو گذری ہے گذرنے دیجئے
آپ کو تو مہرباں لطفِ بہار آہی گیا
دہر میں رسمِ وفا بدنام ہو کر ہی رہی
ہم بچاتے ہی رہے دامن  غبار آہی گیا
ہنس کے بولے اب تجھے زنجیر کی حاجت نہیں
اُن کو میری بے بسی پے اعتبار آہی گیا
شکوہ سنجی اپنی عادت میں نہیں داخل مگر
دل دکھا تو لب پہ حرف ناگوار آہی گیا

اتوار، 19 فروری، 2017

نہ پابندِ زباں ہم ہیں نہ مجبورِ سخن ہم ہیں - از ڈاکٹر کلیم عاجزؒ Na paband e Zaban Ham hain by Dr. Kaleem Aajiz R.A

بہ ایں قیدِ خموشی بھی غزلخواں ہمہ تن ہم ہیں
نہ پابندِ زباں ہم ہیں نہ مجبورِ سخن ہم ہیں
گلستاں میں شریکِ صحبتِ اہلِ چمن ہم ہیں
بس اتنی بات پر کیوں قابل دارو رسن ہم ہیں
جوابِ ظلم دیتی جارہی ہے اپنی مظلومی
اُدھر تلوار رنگیں ہے اِدھر رنگیں کفن ہم ہیں
خزاں سے کب کی بنیادِ گلستاں گر چکی ہوتی
مگر یہ خیریت ہے زیرِ دیوارِ چمن ہم ہیں
نشیمن پھونک کر سمجھے سب کچھ پھونک ڈالا ہے
حجابِ گل میں بیٹھے بجلیوں پر خندہ زن ہم ہیں
اگرچہ بزم میں ہم بھی ہیں لیکن فرق کتنا ہے
وقارِ انجمن تم ہو ۔ وبالِ انجمن ہم ہیں 

کلیجہ تھام لو ، روداد غم ہم کو سنانے دو - از ڈاکٹر کلیم عاجزؔؒ Kaleja Tham lo roodad e gham sunane do by Dr. Kaleem Ajiz R.A

کلیجہ تھام لو ،    روداد غم  ہم کو سنانے دو
تمہیں دُکھا ہوا دل ہم دکھاتے ہیں دکھانے دو
اسی کے دم سے تھوڑی روشنی ہے خانہ دل میں
بجھاتے کیوں ہو شمع آرزو کو جھلملانے دو
یہ بجلی اس دل خوابیدہ کو اک تازیانہ ہے
مری محرومیوں پر آسماں کو مسکرانے دو
اُسی سے تم کسی کی زُلف کی روداد سُن لینا
اُدھر دیکھو وہ دیوانہ چلا آتا ہے آنے دو
سنا ہے عشق کی معراج پنہاں ہے شہادت میں
چھری لاؤ ہمیں بھی اپنی قسمت آزمانے دو
نہ داغ آئے کا اپنی دامنِ حسنِ طبیعت پر
وفا پر میری جو تہمت لگاتے ہیں لگانے دو
زمانہ صبر کر لیتا ہے عاجزؔ ہم بھی کر لیں کے
خلش دل کی مٹالینے کو دو آنسو بہانے دو

درد کب دل میں مہرباں نہ رہا - از ڈاکٹر کلیم عاجزؔ Dard kab dil main meharban na raha by Dr. Kaleem Aajiz R.A

درد کب دل میں مہرباں نہ رہا
ہاں مگر قابل بیاں نہ رہا
ہم جو گلشن میں تھے بہار نہ تھی
جب بہار آئی آشیاں نہ رہا
غم گراں جب نہ تھا گراں تھا مجھے
جب گراں ہو گیا گراں نہ رہا
دوستوں کا کرم معاذ اللہ
شکوہ  جَور دُشمناں نہ رہا
بجلیوں کو دعائیں دیتا ہوں
دوش پر بار آشیاں نہ رہا

بہار آرہی ہے تو آئے چمن میں- از ڈاکٹر کلیم عاجزؒ Bahar aa rahi hai to aaye chaman mian by Dr. Kleem Aajiz R.A

غریبُ الوطن کا رہا کیا وطن میں
بہار آرہی ہے تو آئے چمن میں
ہر اِک پھول خندہ بلب ہے چمن میں
میں کیا کہ گیا اپنے دیوانہ پن میں
نہ اشکوں نے موقع دیا گفتگو کا
زباں رہ گئی آرزوئے سخن میں
کبھی ہم غریبوں کی خلوت میں آتی
بہت دھوم ہے شمع کی انجمن میں
مرے سننے والے مجھے دیکھتے ہیں
میں بے پردہ نکلا نقاب سخن میں
اِدھر میں سناتا رہا درد پنہاں
اُدھر شمع روتی رہی انجمن میں

رنج خزاں میں شوق بَہارِ چمن میں ہے - از ڈاکٹر کلیم عاجزؒ Ghazal by Dr. Kaleem Aajiz R.A

رنج خزاں میں شوق بَہارِ چمن میں ہے
دیوانہ آج تک اُسی دیوانہ پن میں ہے
کھینچی ہے بیکسی نے یہاں ایک آہ سرد
سہمی ہوئی سی شمع وہاں انجمن میں ہے
آتی ہے صاف صاف جھلک زخم و داغ کی
دل اور بے حجاب نقابِ سخن میں ہے
کچھ آستینِ برق میں ہے خاکِ آشیاں
کچھ دامنِ ہوائے بہارِ چمن میں ہے
ہر ناوکِ ستم یہ بتاتا ہے صاف صاف
اَب زور کتنا بازوئے ناوک فگن میں ہے
جلنے دے جل رہا ہے دلِ بے زباں اگر
تو خوش تو ہے کہ شمع تری انجمن میں ہے
آتی ہے پھر زباں پہ مری گفتگوئے حق
پھر ایک زور عالمِ دارو  رسن میں ہے
عاجزؔ  کرون گا پیش کیا میں اہل بزم کو
بس  اک متاعِ غم مری جیبِ سخن میں ہے

کچھ اپنی زندگی نالوں میں کچھ فریاد میں گذری - از کلیم عاجزؔ Kuchh Apni zindagi Nalon main kuch faryad mian guzri by Dr. Kaleem Aajiz R.A

کچھ اپنی زندگی نالوں میں کچھ فریاد میں گذری
جو باقی رہ گئی اندیشئہ بیداد میں گذری
خزاں کا دور گذرا خانہ بربادی کے ماتم میں
بہار گل بہار آشیاں کی یاد میں گذری
لہو جتنا رگوں میں تھا وفا کے جوش میں نکلا
زباں مین جتنی طاقت تھی ستم کی داد میں گذری
گذارا بندگئ باغباں میں دورِ آزادی
اسیری پیروئ خاطرِ صیاد میں گذری
نتیجہ کچھ نہ تھا عاجزؔ ہماری سعئ و کوشش کا
خموشی میں جو گذری تھی وہی فریاد میں گذری

جہاں فریاد بھی گوشِ نزاکت پر گراں گزرے - از ڈاکٹر کلیم عاجزؔ Jahan Faryad bhi by Dr. Kaleem Aajiz R.A

جہاں فریاد بھی گوشِ نزاکت پر گراں گزرے
ہم ایسی بے کسی کی زندگی سے مہرباں گزرے
اسیروں سے ذرا ہٹکر نسیمِ گلستاں گزرے
کہیں ایسا نہ ہو دل پرملال ِ آشیاں گزرے
مبارک برق تجھ کو لالہ و گل کی نگہبانی
کہ اب تو گلستاں سے دردمندِ گلستاں گزرے
وطن سے بے کسی یوں لے کے نکلی ہے غریبوں کی
کہ جیسے کارواں کے بعد گرد کارواں گزرے

زندگی مائلِ فریاد و فغاں آج بھی ہے - از ڈاکٹر کلیم عاجز - Zindagi mael e Faryad by Dr. Kaleem Aajiz R.A

زندگی مائلِ فریاد و فغاں آج بھی ہے
کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے
دلِ افسردہ کو پہلو میں لئے بیٹھے ہیں
بزم میں مجمعِ خستہ جگراں آج بھی ہے
تلخیِ کوہ کنی کل بھی مرا حصہ تھا
جامِ شیریں بہ نصیب دیگراں آج بھی ہے
زخمِ دل کے نہیں آثار بظاہر لیکن
چارہ گر سے گلہِ درد نہاں آج بھی ہے
آج بھی گرم ہے بازار جفا کاروں کا
کل بھی آراستہ تھی اُن کی دُکاں آج بھی ہے
گوشئہ امن نہیں آج بھی بلبل کو نصیب
چشم صیاد بہر سُو نگراں آج بھی ہے
آج بھی زخمِ رگِ گل سے ٹپکتا ہے لہو
خوں مین ڈوبی ہوئے کانٹوں کی زبان آج بھی ہے
زندگی چونک کے بیدار ہوئی ہے لیکن
چشم و دل پر اثرِ خوابِ گراں آج بھی ہے
اِس طرف جنس وفا کی وہی ارزانی ہے
اُس طرف اک نگہ ِ لطف گراں آج بھی ہے
حیف کیوں قسمتِ شاعر پہ نہ آئے عاجزؔ
کل بھی کمبخت رہا مرثیہ خواں آج بھی ہے

محبت بھی کئے جاتے ہیں غم کھائے بھی جاتے ہیں - از ڈاکٹر کلیم عاجزؔ Mohabbat bhi kiye jate hain by Dr. Kaleem Aajiz R.A

محبت بھی کئے جاتے ہیں غم کھائے بھی جاتے ہیں
گنہ کرتے بھی جاتے ہیں سزا پائے بھی جاتے ہیں
جفا کرتے بھی ہیں عذرِ جفا لائے بھی جاتے ہیں
لہو پیتے بھی جاتے ہیں قسم کھائے بھی جاتے ہیں
اِسی نے تم کو چمکایا ہمیں برباد کر ڈالا
وفا پر ناز بھی کرتے ہیں پچھتائے بھی جاتے ہیں
وہی ہر صبح امیدیں وہی ہر شام مایوسی
کھلے بھی جا رہے ہیں پھول مرجھائے بھی جاتے ہیں
مزا یہ ہے لئے بھی جا رہے ہیں جانب مقتل
تسلی بھی دیئے جاتے ہیں سمجھائے بھی جاتے ہیں
پڑے ہیں اس بُتِ کافر کے سنگِ آستاں ہوکر
مگر پامال بھی ہوتے ہیں ٹھکرائے بھی جاتے ہیں

ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے- از ڈاکٹر کلیم عاجزؔ Sitam ko bhi karam - by Dr. kaleem Aajiz R.A

ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی نا مہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
بِنائے زندگی دوچار تنکوں پر سہی لیکن
انہی تنکوں کو آخر آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
بھلا ہم اور تجھ کو ناز بردارِ عدو کہتے!
مگر اے بے نیازِ دوستاں ! کہنا ہی پڑتا ہے
محبت خانہ صیاد سے بھی ہو ہی جاتی ہے
قفس کو بھی کسی دن آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ مانا عشق میں ضبط فغاں کی شرط لازم ہے
اُلجھتا ہے جو دل دردِ نہاں کہنا ہی پڑتا ہے

چمن اپنا لٹا کر بلبلِ ناشاد نکلی ہے- از ڈاکٹر کلیم عاجزؔ - Ghazal by Dr. Kaleem Aajiz R.A

خدا رکھے سلامت تیری چشمِ بے مروت کوبڑی بے درد نکلی ہے بڑی جلاد نکلی ہے


چمن اپنا لٹا کر بلبلِ ناشاد نکلی ہے
مبارکباد ۔ تیری آرزو صیاد نکلی ہے
خدا رکھے سلامت تیری چشمِ بے مروت کو
بڑی بے درد نکلی ہے بڑی جلاد نکلی ہے
نکل کر دل سے آہوں نے کہیں رتبہ نہیں پایا
چمن سے جب بھی بوئے گل ْ برباد نکلی ہے
لبِ بام آکے تم بھی دیکھ کو کیا تماشہ ہے
فغاں کی دوش پر لاش دلِ برباد نکلی ہے
پریشاں ہوکے جانِ زار کیا نکلی ہے سینے سے
کسی بیداد گر کی حسرت بیداد نکلی ہے

کچھ انتہائے سلسلہ غم نہیں ہے آج - ڈاکٹر کلیم عاجزؔ - Ghazal by Dr. Kaleem Aajiz R.A

کچھ انتہائے سلسلہ غم نہیں ہے آج
ہر ظلم آخریں ستمِ اولیں ہے آج
میرے مذاق غم پے ہر اک نکتہ چیں ہے آج
ان کی طرف نگاہ کسی کی نہیں ہے آج
بدنام کر رہی ہے مجھے میری بندگی
ہر رنگِ آستاں پہ نشانِ جبیں ہے آج
درماں کہاں کہ پرشش غم بھی نہ کر سکی
اتنی بھی اُس نگاہ کو فرصت نہیں ہے آج
پردہ حریم ناز کا اپنےبچائیے
فریاد کا مزاج بہت آتشیں ہے آج
انکار کر رہے ہیں وہ اُسی جرمِ قتل سے
جسکی گواہ ہر شکنِ آستیں ہے آج
زنجیر اپنا ہاتھ بڑھاتی ہی رہ گئی
دیوانہ بہار کہیں سے کہیں ہے آج
عاجزؔ مری فغاں ہر اک یوں خموش ہے
جیسے کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں ہے آج


جدا دیوانہ پن اب ایسے دیوانے سے کیا ہوگا- از کلیم عاجزؔ Juda diwa pan - Ghazal by Dr. Kaleem Aajiz R.A

جدا دیوانہ پن اب ایسے دیوانے سے کیا ہوگا
مجھے کیوں لوگ سمجھاتے ہیں سمجھانے سے کیا ہوگا
سلگنا اور شئے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
جو ہم سے ہو رہا ہے کام ، پروانے سے کیا ہوگا
مرا قاتل انہیں کہتے ہیں سب اور ٹھیک کہتے ہیں
قسم سو بار وہ کھائیں قسم کھانے سے کیا ہوگا
مناسب ہے سمیٹو دامنِ دستِ دعا عاجزؔ
زباں ہی بے اثر ہے ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا

خوشی کیا ہے کسی آوارہ وطن کے لئے - از کلیم عاجزؔ Ghazal by Kaleem Aajiz R. A

خوشی کیا ہے کسی آوارہ  وطن کے لئے
بہار آئی ہے تو آیا کرے چمن کے لئے
نہ لالہ و گل نہ نسترن کے لئے
مٹے ہیں ہم کسی غارت گرِ چمن کے لئے
کبھی جو گوشہ خلوت میں شمع ہاتھ آئی
لپٹ کے رو لئے یارانِ انجمن کے لئے
ہم ان سے شکوہ بیداد کیا کریں عاجزؔ
یہاں تو پاسِ وفا قفل ہے دہن کے لیے

اب محفلِ غزل میں غزل آشنا ہے کون؟ - کلیم عاجزؔ Ghazal by Dr. Kaleem Ajiz R.A

اب محفلِ غزل میں غزل آشنا ہے کون؟
مانا کہ ایک ہم ہیں، مگر دُوسرا ہے کون؟
قاتل نے جب پُکارا کہ اہلِ وفا ہے کون؟
سب لوگ جب خموش رہے، بول اُٹھا ہے کون؟
تُم اپنی انجُمن کا ذرا جائزہ تو لو
کہنے کو تو چراغ بہت تھے، جلا ہے کون؟
دعویٰ سُخن کا سب کو ہے لیکن تمام عُمر
اک دشمنِ سخن سے مُخاطب رہا ہے کون؟
سب دیکھتے جدھر ہیں اُدھر کیا ہے؟ کچھ نہیں!
ہم دیکھتے جِدھر ہیں اُدھر دیکھتا ہے کون؟
تصویرِ میکدہ میری غزلوں میں دیکھئیے
سنبھلا رہا ہے کون، نشے میں گِرا ہے کون؟
مَیں ایک نقشِ پا ہُوں مگر مَیں بتاؤنگا
اِس راہ سے جو گزرا ہے وہ قافلہ ہے کون!
سب دوست ایک ایک کرکے مُجھے چھوڑتے گئے
دُشمن بھی دنگ ہے کہ یہ تنہا کھڑا ہے کون
گھر بھی ترا، گلی بھی تری، شہر بھی ترا
جو چاہے جِس کو کہہ دے، تُجھے روکتا ہے کون؟
عاجؔز یہ کِس سے بات کرو ہو غزل میں تُم؟
پردہ اُٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چُھپا ہے کون